اسلامک ریسرچ فورم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اسلامک ریسرچ فورم شعبہ علوم اسلامیہ ، جامعہ سرگودھا میں خوش آمدید۔
ازراہ کرم آپ سب سے پہلے فورم پر اپنی رجسٹریشن کا اہتمام کریں تاکہ فورم کے تمام گوشوں تک آپ کی رسائی ہوسکے۔ شکریہ

Join the forum, it's quick and easy

اسلامک ریسرچ فورم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اسلامک ریسرچ فورم شعبہ علوم اسلامیہ ، جامعہ سرگودھا میں خوش آمدید۔
ازراہ کرم آپ سب سے پہلے فورم پر اپنی رجسٹریشن کا اہتمام کریں تاکہ فورم کے تمام گوشوں تک آپ کی رسائی ہوسکے۔ شکریہ
اسلامک ریسرچ فورم
Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.
Search
 
 

Display results as :
 


Rechercher Advanced Search

Latest topics
» Islamic Calligraphic Art
عُلومِ قرآن EmptySun Aug 12, 2012 9:26 pm by عبدالحئ عابد

» Research Papers Thesis مقالات ایم اے،پی ایچ ڈی
عُلومِ قرآن EmptySun Aug 12, 2012 8:05 pm by عبدالحئ عابد

» تاریخ تفسیر ومفسرین
عُلومِ قرآن EmptyWed Jul 11, 2012 4:54 pm by عبدالحئ عابد

» تفسیر تفہیم القرآن عربی: سید ابوالاعلیٰ مودودی
عُلومِ قرآن EmptyFri Jun 15, 2012 4:20 pm by عبدالحئ عابد

» علم حدیث میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کی خدمات
عُلومِ قرآن EmptyFri Jun 15, 2012 4:15 pm by عبدالحئ عابد

» حرمت سود: ابوالاعلیٰ مودودی
عُلومِ قرآن EmptyFri Jun 15, 2012 4:12 pm by عبدالحئ عابد

» اگر اب بھی نہ جاگے تو: ازشمس نوید عثمانی
عُلومِ قرآن EmptySat May 14, 2011 4:48 am by عبدالحئ عابد

» کالکی اوتار اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم
عُلومِ قرآن EmptySat Apr 09, 2011 9:29 pm by عبدالحئ عابد

» نراشنس اور آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم
عُلومِ قرآن EmptySat Apr 09, 2011 9:24 pm by عبدالحئ عابد

Navigation
 Portal
 Index
 Memberlist
 Profile
 FAQ
 Search

عُلومِ قرآن

Go down

عُلومِ قرآن Empty عُلومِ قرآن

Post  عبدالحئی عابد Tue Dec 07, 2010 7:02 am


عُلومِ قرآن
ڈاکٹر سید عبدالوہاب طالقانی
علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
علوم قرآن کو دوحصّوں میں تقسیم کیاجاتا ہے:
اولاً۔ وہ علوم جو قرآن سے ماخوذ ہیں اور جنہیں آیاتِ قرآن میں تحقیق اور جستجوسے حاصل کیا جاتا ہے انہیں ”علوم فی القرآن" کہتے ہیں۔
ثانیاً۔ وہ علوم جنہیں فہم القرآن کے لئے مقدمہ کے طور پر سیکھا جاتاہے انہیں علوم لِلْقُرآن کہتے ہیں۔
علوم فی القرآن :
قاضی ابو بکر بن عربی(۱)نے ”قانون التَاویل“ میں قرآن سے ماخوذ علوم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے
(۱) توحید (۲) تذکیر (۳) احکام
اس کتاب میں مخلوقات سے آگاہی۔ اسماء صفات اور خالق سے آشنائی کو علم توحید قرار دیا گیاہے۔ بہشت کا وعدہ اور دوزخ کی وعید کو علم تزکیراورتمام مباح امور، یعنی شرعی احکام اور اُن کے نفع و نقصانات کے بیان کو علم احکام محسوب کیا گیا ہے۔ کتاب میں علم توحید کے لئے اس آیت کو بطور مثال پیش کیا گیاہے ” وَاِلٰہُکم اِلٰہ وَّاحِد’‘" (۱)اس میں توحیدِذات افعال اور صفات پوشیدہ ہیںعلم تذکیر کے لئے ” وَ ذَ کّرِ’ فَانِّ الذِّکریٰ تنفع المومنین“ کی مثال دی گئی ہے اور تیسرے علم لئے ”وَاَنٍ اَحْکُمْ بینھم“کو شاہد کے طور پر لایا گیا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ فاتحتہ الکتاب کو اسی لئے ”امّ الکتاب" کہا جاتاہے کہ اس میں تینوں اقسام توحید،تذکیر،اور احکام کا ذکر موجود ہے۔
مثلاًسورہ کی ابتدا سے لے کر یوم الّدین تک توحید ہے” اِیّاکَ نَعبدُ وَایاکَ نَسْتَعِین“ عبودیت اور احکام میں اطاعت سے متعلق ہے۔
” اِھدِناَالصِّراطَ المُستَقیِم"سے لیکر آخر تک میں تذکیر کا ذکر ہے۔
اَبُوالْحَکَمْ اِبْنِ برّجان (۲) ” ارشاد“ میں تحریر کرتے ہیںسارا قرآن تین علوم پر مشتمل ہے اسماء اللہ اور اسکی صفات کا علم،نبّوت اور اس کے استدلال و براھین کا علم، علم تکلیف (شرعی احکامات)
محمد بن جریر طبری کہتے ہیں:
قرآن تین علوم پر مشتمل ہے توحید،اخبار اور دیانات اسی لئے پیغمبر خدا نے فرمایا ہے ” قُل ھُواَاللہُ اَحَدْ" قرآن کے برابر ہے چونکہ یہ سورت سراسر توحید ہے۔
عُلوم الِقُرآن
کلی طور پر وہ علوم جو آیات کے فہم و ادراک کے اور کلام خدا کے معانی کو سمجھنے کے لئے،قرآن سے پہلے مقدمةً سیکھے جاتے ہیں اُنہیں علوم قرآن کہتے ہیںاس تحریر میں ہمارا مقصود یہی علوم اور منابع ہیں کیونکہ قرآن پیغمبر اسلام کا ایک ابدی معجزہ ہے جو درج ذیل موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہےاخبار، قصص،حِکم، موعظہ،وعدہ،وعید،امر،نہی،تنذیر،تہذیب قلوب، تسکین نفوس، ارشاد، مطالعہ فطرت، وسیع کائنات میں غوروفکر۔
قرآن مجید فصیح عربی زبان میں نازل کیاگیا ہے
” وَانِّہٰ لَتنزیلُ رَبّ العالِمین نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الاَمینً وعَلیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الُمنْذِرینَ بلِسٰانٍ عَرَ بیٍ مُّبِین"
تحقیق یہ قرآن عالمین کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جبرئیل کے توسط سے اسے تمہارے قلب پر نازل کیا گیاتاکہ تم اس کے مواعظ اور حکمتوں کو لوگوں کے لئے بیان کرو۔ یہ قرآن فصیح عربی زبان میں ہے۔
لیکن جیسا کہ عربی زبان کا طریقہ ہے قرآن بھی حقیقت و مجاز، تصریح اور کنایہ ایجازو تشبیہ و تمثیل اور امثال سے پُرہےمعارف قرآن کے طالب مجبور ہیں کہ وہ بلاغت و فصاحت کے علوم کو اچھی طرح سیکھیں کیونکہ الہی کلام کے اعجاز سے آگاہی متعلقہ امور سے مکمل واقفیت کے بغیرہرگز ممکن نہیں ہے ؟ہرگز نہیںمعرفت قرآن کے مقدمات سے آگاہی جس قدر زیادہ ہوگیکلام الہی کی روح اور گہرائی سے آگاہی بھی اسی قدر زیادہ ہو گی۔
قرآن کریم میں آیات متشابہ موجود ہیں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:
” ھُوَالَّذی اَنزَلَ علیک اَلکِتَاب منہ آیَات’‘ محُّکَمٰاتٌ ھُنَّ اُمُّ ا’لکِتَاب وَاُخَرُمُتَشٰابِہاٰت فَاَمّااَّلَذِین فِی قُلُوبِہم زیغُ فَیَتَّبعُونَ مَاتَشَابَہ منہُ اَبْتغَاءَ الفِتَنة وَابتغاءَ تاوِیلہ وَماَیعلم ُ تَاوِیلَہ اِلاَاللہ وَالَّراسَخونَ فیِ العلم یَقُولُون آمَنّابِہ کُلّ مِن عندرَبّناٰ وَماَیَذَّکَّرُ اِلاّاُو لُوالاَلباٰب"
(وہی خدا ہے کہ جس نے تم پر کتاب نازل کی اس کتاب میں بعض آیات محکم ہیں جو کہ کتاب خداکی دیگر آیات کے لئے اصل اور مرجع کی حیثیت رکھتی ہیںبعض متشابہ ہیں پس جن کے دل باطل کی طرف مائل ہیں وہ متشابہ کے پیچھے جاتے ہیں تاکہ اس میں تاویل کر کے شُبہ اور فتنہ وفساد پیدا کریںحالانکہ انکی تاویل سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم سب محکم اور متشابہ پر جو ہمارے رب کی طرف سے نازل شدہ ہے ایمان لائے ہیں اور سوائے صاحبان عقل کے کوئی بھی اس حقیقت کو نہیں جانتا۔
قرآنی معارف کے طالِب حضرات کو چاہیے کہ وہ مشکلات کے وقت پیغمبر خدا اور آلِ رسول کی طرف رجوع کریں قرآن کی لغات اور معانی سے متعلق اُن سے سوال کریں
حضرت عمرنے ایک دفعہ منبر پر کھڑے ہو کر آیت ” وَفاَ کِہَةً وَاَباًّ" کی تلاوت کی اور کہا فاکِہَة کو جانتا ہوں لیکن نہیں جانتا کہ اَبّاًَُّ سے کیا مراد ہے ؟۔
بزرگ صحابی اور حبرالامةابن عباس فرماتے ہیں کہ میں فاطرالسموات کا مطلب نہیں جانتا تھا ایک دفعہ دو عرب جھگڑتے ہوئے میرے پاس آئےوہ ایک کنویں سے متعلق جھگڑ رہے تھے اُن میں سے ایک نے کہا”افطرتھا" یعنی ابتدیتھایعنی سب سے پہلے میں نے کنواں کھودا ہے اس وقت میں اس کے معانی سے آگاہ ہوا۔
یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دوسرے افراد مخصوصاً غیر عرب لوگوں کو تفسیر کی اور معانی ومطالب سمجھنے کی ضرورت نہیں ہےایسے علوم شناخت قرآن کے لئے ضروری ہیںجب مقدماتی علوم سے انسان اچھی طرح آگاہ اور باخبر ہو جائے تو وہ قرآن کے اندر پوشیدہ علوم کی بھی کماحقہ معرفت حاصل کرسکتا ہے۔
علوم قرآن پرپہلی کتاب
علوم قرآن پر صدر اسلام سے ہی مستقل طور پر کتابیں تدوین ہوئی ہیں فہرست نویس علماء انہیں ضبط تحریر میں لائے ہیںابن ندیم نے ” الفہرست“ میں تفصیل کے ساتھ مولفین کے اسماء کا ذکر کیا ہے۔
ہم یہاں پر ” الفہرست“ سے صرف عناوین کو نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
۱۔ تسمیة الکتب المصنفةفی تفسیر القرآن ۲۔ فی الغات القرآن
۳۔ الکتب المولّفہ فی معانی القرآن ومشکلہ و مجازہ ۴۔ فی القِرات
۵۔ الکتب الموٴلِّفَہ فی غریب القرآن ۶۔ فی لاٰماٰت القرآن
۷۔ فی النَقط و الشَکل للقرآن ۸۔ وقف التمام
۹۔ فی الوقف والابتداء ا فی القرآن ۱۰۔ فی مُتشابہ القرآن
۱۱۔ فی اختلاف المصاحف ۱۲۔ اجزاء القرآن
۱۳۔ فیما اتفقت الفاظِہِ و معانِیہِ فی القرآن ۱۴۔ من فضائل القرآن
۱۵۔ الکتب المولفة فی ھِجاء المصحف ۱۶۔ مقطوع القرآن و موصولہ
۱۷۔ الکتب الموٴلِّفة فی عَدَدِ آیِ القرآن ۱۸۔ ناسخ القرآن و منسوخہ
۱۹۔ الکتب المولفَةِ فی الْہٰاآتِ ورُجُوعِہٰا ۲۰۔ نزول القرآن
۲۱۔ احکام القرآن ۲۲۔ معانی شتّٰی من القرآن
لیکن ہمارے پیش نظر اس طرح کی کُتب نہیں ہیں بلکہ ہماری مراد وہ کتاب ہے جو ” الاتقان والبرھان“ کی طرح تمام علوم قرآن کو اپنے اندر لئے ہوئے ہوہم یہاں پر علوم قرآن سے متعلق سب سے پہلی جامع کتاب کے بارے میں گفتگو کریں گے۔
حاجی خلیفہ(۳) نے ابوالقاسم محمد بن حبیب نشاپوری (متوفی ۲۴۵) کی کتاب ” التَّنبیہ عَلیَ فضلِ علوم القرآن“ کا ذکر کیاہے۔
چونکہ اس کا کوئی نسخہ ہماری دسترس میں نہیں ہے لہذا معلوم نہیں ہے کہ ان کی عبارت میں ” علوم القرآن“ سے مراد وہی ہے جو ہمارے مد نظر ہے یا کہ کوئی اور مسئلہ اُن کے پیش نظر تھا۔
مذکورہ بالا کتاب سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر ہم عبدالعظیم زُرقانی کے قول کی طرف توجہ کریں تو یہ واقعاً قابل غور ہے وہ کہتے ہیں۔
” میں نے مصر کے دارالکتب میں ” البُرھان فی علوم القرآن“ کے نام سے ایک کتاب دیکھی اس کے مصنف علی بن ابراہیم بن سعید المشہور صوفی ( متوفی ۳۲۰) ہیں کتاب اصل میں تیس اجزاء پر مشتمل تھی لیکن وہاں پندرہ اجزاء سے زیادہ موجود نہ تھے وہ بھی غیر مرتب تھے۔ ایضاح المکنون(۴) میں ” الشامل فی علوم القرآن" نامی کتاب کا تذکرہ ملتا ہے جو ابوبکر محمد بن یحییٰ صولی (متوفی۳۳۰) نے لکھی ہے مذکورہ کتاب چونکہ دسترس میں نہیں ہے لہذا مطمن نہیں ہوا جا سکتاکہ علم القرآن سے مراد وہ مصطلح علم ہے جو کہ ہمارے پیش نظر ہے یانہیں۔
سیوطی نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں ” وَمن المصنّفاّت فی مثل ھذا النَمطَ“ کے ذیل میں چند کتب اور ان کے موٴلفین کے نام نقل کیے ہیں جن میں آخری کتاب ” البرھان فی مشکلات القرآن“ ہے جس کے مصنّف کا نام ابوالمعالٰی عزیزی بن عبدالملک المعروف شَیذَلہ (متوٴفی۴۹۴) ہے۔
ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن جوزی بغدادی (متوفی ۵۹۴) نے ایک کتاب ” فُنُونُ الافنانِ فیِ عُلُومِ القُرآن" اور ایک دوسری کتاب ” المُجتبیٰ فی علوم تتعلق باالقرآن" کے نام سے لکھی ہے۔
سیوطی اور حاجی خلیفہ نے صرف فنون الافنان کو ابن جوزی سے نقل کیا ہے لیکن زرقانی نے دونوں کتابوں کو دارالکتب مصریہ کے مخطوطات کا جُزٴ قرار دیا ہے اور انہیں ابن جوزی کی تالیفات قرار دیا ہے۔
ساتویں صدی میں علم الدین سخاوی (متوفی۶۴۱) نے ” جمال القُرّاء" تالیف کی ہے کتاب کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب علوم قرات سے متعلق تھی اور قراءِ قرآن کے لئے لکھی گئی تھی۔
سیوطی نے سخاوی تذکرہ کے بعد ایک کتاب بنام ” المُرشِدُ الوَجیز فیِ ماَیَتَعلّقُ بالقرآنِ العَزِیز“ کا ذکر کیا ہے جو ابو شامہ (متوفی ۶۶۵) کے تالیف شدہ ہے وہ کہتے ہیں جو کچھ علوم القرآن سے متعلق لکھا گیا ہے اس میں سے بہت کم حصہ کا یہاں تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان کی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ علوم القران کے حوالے سے علم الدین سخاوی کی کتاب”جمال القّراء“ ان کے مآخذ اور مصادر میں شامل ہوتی ہے کی حیثیت رکھی تھی۔
آٹھویں صدی میں بدر الدّین زرکشی (متوفی ۷۹۴) نے معروف کتاب ” البُرھان فی علوم القرآن" تالیف کی اسکی متعدد اشاعتیں موجود ہیں
یہ کتاب جلال الدین سیوطی کی الاتقان کے مصادر میں سے ہے۔ کیونکہ دونوں کتابوں البرھان، الاتقان مطالب اور متون کے تقابل اور جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیوطی نے زرکشی کا نام لئے بغیر بہت سارے مطالب کو اُس سے اقتباس کیا ہے وہ در حقیقت ذرکشی سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔ نیز اسی صدی میں محمد بن سلیمان کا فیجی ( متوفی ۸۷۹) نے ایک کتاب علوم القرآن کے حوالے سے لکھی جو بقول سیوطی کے بے مثال کتاب تھی۔
نویں صدی میں، میں قاضی القضاة جلال الدین بُلقینی (متوفی ۸۲۴) نے ایک کتاب ” مواقع العلوم من مواقع النجوم" تحریر کی ہے جس کے بارے میں امام جلال الدین سیوطی کہتے ہیں:
”فرایتہ تالیِفاً لِطَیفاً ومجموعاً ظَریفاً ذَا تَر تیبٍ وَ تقرِیرٍ وتنوِیعٍ وَتحبیرٍ"
سیو طی نے محمد بن سلیمان کا فیجی کو جلال الدین بلقینی پر مقدم رکھا ہے اس کی وجہ شاید یہی ہو گی کہ وہ چودہ سال کا فیجی کی شاگردی میں ہے اور وہ اس طرح استاد کے احترام حق کا ادا کرنا چاہتے تھے۔
دسویں صدی میں یا نویں صدی کے آخر میں جلال الدین سیّوطی (متوفی ۹۱۱) نے ”الاتقان“ لکھی۔
اب ہم قارئین محترم کے سامنے علوم قرآن سے متعلق ان کتب کی فہرست رکھیں گے جو اب بھی معتبر کتب خانوں میں موجود ہیں:
۱۔ الاتقان فی علوم القرآن
جلال الدین سیوطی (۸۴۹۹۱۱)مطبع المشہد الحسینی ( ۱۳۸۷ء) ۴جلد قاھرہ
۲۔ الاحسان فی علوم القرآن
جمال الدین ابوعبداللہ محمدبن احمد بن سعید عقیلہ مکی حنفی (۹۳۰ھ) ایضاح المکنون، ج۳/ص۳۲
۳۔ البیان فی علوم القرآن
ابو عامر فضل بن اسماعیل جُرجانی (کشف الظنون ج ۱/ص۲۶۳)
۴۔ بدایع البرھان فی علوم القرآن
محمدآفندی ارنیری (۱۶۰ھ) ایضاح المکنون (ج۱/ص۱۷۰)
۵۔ البرھان فی علوم القرآن
محمد بن عبداللہ ابن بہادر زرکشی (۷۴۵۷۹۴)تحقیق محمدابوالفضل ابراہیم قاھرہ عیسٰی البابی الحلبی۴جلد ۱۹۵۷
۶۔ بحوث حول علوم القرآن
شیخ محمد جواد محتصر سعیدی نجفینجف مطبعة الآداب جلد ۳۴۷صفحات
۷۔ البیان فی تفسیر القرآن
آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی
۸۔ التاج المرصّع بجواھر القرآن والعلوم
طنطاوی جوھریقاھرہ المکتبہ التجاریہ (۱۹۳۳م)
۹۔ البیان فی علوم القرآن
محمد علی صابونی(پروفیسر شریعت کالج مکہ عصر حاضر کے علماء میں سے ہیں) بیروت دارالعلم ۱۳۹۰ھ (۲۰۲ص)
۱۰۔ التبیان لبعض المباحث المتعلقہ بالقرآن علی طریق الاتقان
شیخ محمد طاہر بن صالح بن احمد جزایری دمشقی، دمشق ۲۸۸ ص
۱۱۔ التمھید فی علوم القرآن
محمد ھادی معرفت محقق معاصر قم ۳جلد مہر پریس قم۱۳۹۶ ھ
۱۲۔ ا لتنبیہ علی فضل علو م القرآن
ابوالقاسم محمد بن حبیب نیشاپوری (۲۴۵)کشف الظنون، ج ۱/ص۴۸۹
۱۳۔ جلاء الاذھان فی علوم القرآن
معین الدین محمدالکہف، ۱۲۹۲ ہجری، ۱۵۰ ص
۱۴۔ الشامل فی علوم القرآن
ابوبکر محمدبن یحییٰ صولی وفات ۳۳۵ئھ، ایضاح المکنون، ج۲/ص۳۹
۱۵۔ علوم القرآن
محمد جواد جلال مطبوعہ بصرہ
۱۶۔ علوم القرآن
احمد عادل کمال تاریخ۱۹۵۱
۱۷۔ عنوان البیان فی علوم البیان
محمد حسنین مخلوق العدوی قاہرہ مطبعة المعاھد ۱۳۴۴
۱۸۔ الفرقدان النیران فی بعض ا لمباحث المتعلقة بالقرآن
محمد سعید بابی دمشقی دمشق۱۳۲۹
۱۹۔ فنون الافنان فی علوم القرآن
ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن جوزی بغدادی وفات ۵۹۷ھ، کشف الظنون، ج۲ص۱۲۹۲
۲۰۔ قانون تفسیر
حاجی سیدعلی کمال دزفولی انتشارات کتب خانہ صدر ناصر خسرو۔ تہران ا جلد
۲۱۔ القرآن علومہ و تاریخہ
حاجی شیخ محمد رضاحکیمی حائری مطابع دارالقس
۲۲۔ القرآن علومہ فی مصر
۲۰۔ ۳۵۸، دکتر عبداللہ خورشیدی بری دارالمعارف مصر
۲۳۔ الآالی الحسان فی علوم القرآن
موسی شاہین قاہرہ مطبعة دارالتالیف ۱۹۶۸، میلادی، ۴۷۱ص
۲۴۔ لمحات فی علوم القرآن واتّجاھات التفسیر
محمد الصّباغ المکتب الاسلامی
۲۵۔ مباحث فی علوم القرآن
دکتر صبحی صالح علمائے معاصر استادبیروت یونیورسٹی (دمشق۱۹۵۸)
۲۶۔ المختار من کتاب الاتقان
جلال الدین عبدالرحمن بن ابو بکرقاہرہ دارالفکرالعربی ۱۹۶۰م
۲۷۔ المدھش فی علوم القرآن
ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن محمدابن علی جوزی بغدادی فقیہ حنبلی وفات۵۹۷ھ، بغدادمطبعة الآداب تصحیح محمد بن طاہر سماری (۱۳۴۸ھ)
۲۸۔ مذکرّہ علوم القرآن
احمد احمد علی مصر( ۱۳۷۰ھ)
۲۹۔ معارج العرفان فی علوم القرآن
سید احمد حسین امروھی وفات ۱۳۲۸ھ، مراد آباد ۱۹۱۸م
۳۰۔ المعجزةالکبریٰ القرآن
نزولہ، کتابتہ،جمعہ،اعجازہ،جدلہ،علومہ،تفسیرہ
محمد ابوزھرہ دارالفکر العربی
۳۱۔ مفتاح علوم القرآن
حاجی شیخ غلام رضا فقیہ خراسانی یذدی، یزد۱۳۶۵ھ
۳۲۔ مقدمتان فی علوم القرآن
یہ کتاب خود دو کتب پر مشتمل ہے کتاب المبانی کے مولف معلوم نہ ہو سکا اور دوسری کتاب کے مولف کا نام ابن عطیہ ہے اور اس کی تصحیح معروف مستشرق آرتھر جعفری نے کی ہے۔ قاہرہ مطبعةالسنہ المحمدیہ ۱۹۰۴ئم
۳۳۔ مناھل العرفان فی علوم القرآن
محمد عبدالعظیم زرقانی مصری، قاہرہ داراحیاء الکتب العربیہ۱۹۶۶م، ۲جلد
۳۴۔ منہج الفرقان فی علوم القرآن
شیخ محمد علی سلامہ بحوالہ مباحث فی علوم القرآن و مناھل العرفان
۳۵۔ الموسوی القرآنیہ
ابراہیم ابیاری و عبدا لصبور مزروق قاہرہموٰسسہ سجلّ العرب ۶جلد
۳۶۔ موجز علوم القرآن
دکتر داؤد عطّار موسسہ اعلمیبیروت
نوٹ:۱ متقّدمین کی چند کتب مثلاً قطب شیرازی کی کتب، زرکشی کی البرھان اور سیوطی کی الاتقان کا مختصراً ذکر آچکا ہے لہذا یہاں تکرار نہیں کیا گیا ہے
۲ بہت سی تفاسیریاتجوید کی کتب کے لئے علوم قرآن کی اصطلاح استعمال ہوتی ہےلیکن ہم نے اس فہرست میں ان کا نام شامل نہیں کیا گیا۔
مثال کے طور پر : الامام الحافظ ابوالقاسم محمد بن احمد بن جزی الکلبی الغُرناطیکی کتاب التسہیل لعلوم التنزیل چار جلدوں میں تفسیر قرآن ہے چونکہ مصنّف نے مقدمہ میں علوم قرآن کے بعض مطالب بیان کئے ہیں لہذا اس کتاب کے لئے استعمال کیا ہے۔
اسی طرح مخزن الاسرار فی علوم القرآن بانوی ایرانی کی تالیف ہے یہ ۱۶ جلدوں میں تفسیر ہے۔ جس کا ہم نے تذکرہ نہیں کیا۔
اسی طرح ستر البیان فی علم القرآن،حسن بیگلری کی تحریر کردہ کتاب ہے جو علم تجوید سے متعلق ہے اس کا تذکرہ کتب تجوید کی فہرست میں ہونا چاہیے۔
علوم قرآن کی اصطلاح
علومِ قرآن کی اصطلاح اور اسکی تقسیم بندی
صدر اسلام ہی سے اہل علم ودانش صحابہ تابعین اور تبع تابعین علوم قرآن میں سے کسی ایک یا چند علوم میں مہارت رکھتے تھے اورانہوں نے خاص موضوعات میں تحریریں اور کتب یادگار چھوڑی ہیںمثلاً ابو عبید قاسم بن سلام (متوفی۲۲۴) نے بقول ابن ندیم کے درج ذیل کتب تحریر کی ہیںغریب القرآن، معانی القرآن،القرائات،کتاب عدد آی القران، کتاب ناسخ ومنسوخ اور فضائل القرآن یہ تمام موضوعات اصطلاحاً علوام القرآن کہلاتے ہیں۔
ابن ندیم نے ابن کامل کے حالاتِ زندگی بیان کرتے ہوئے انہیں ” احمد المشہورین فی علوم القرآن“ قرار دیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ چوتھی صدی اور ابن ندیم کے زمانہ سے ہی علوم قرآنی کی اصطلاح رائج رہی ہے البرھان فی علوم القرآن اور الاتقان میں بنیادی طور پر انہیں علوم پر بحث کی گئی ہے۔
متقدمین نے اپنے ذوق اور سلیقہ کے مطابق علوم قرآن کی تقسیم بندی کی ہےمثلاً جلال الدین سیوطی نے نزول قرآن کو رات دن،سردی و گرمی،سفرحضروغیرہ میں تقسیم کر کے علوم قرآن کی ۸۰ اقسام بیان کی ہیں۔ نے علامہ قطب الدین شیرازی (متوفی۶۴۸) نے علوم قرآن کو بارہ موضوعات میں تقیسم کیا ہے متقدمین کے نظریات سے آگا ہی حاصل کرنے کے لئے ہم قطب الدین شیرازی کی آراء و نظریات کا یہاں پر تذکرہ کریں گے۔
علوم القرآن کی تقسیم
قطب الدین شیرازی کہتے ہیں
علم فروع دو قسموں کا ہےایک مقصود اور دوسرا تبع مقصود، مقصود کے چار رکن ہیں پہلارکن علم کتاب ہے اور اسکی بارہ اقسام ہیں۔
۱۔ علم قرائت: اسکی دو اقسام ہیں ایک قرائات سبع، جو کہ نبی کریم سے تواتر سے مروی روایات سے اخذ ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ نماز پڑھنا درست ہے۔
اور دوسری شواذّ اوریہ آحاد کی روایات کی ساتھ مروی ہے اور اسکے ساتھ نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔
۲۔ علم وقوف : یعنی آیات کہاں پر ختم ہوتی ہیں اور دوران آیت کہاں پر وقف کیا جاسکتا ہے اور یہ منقولی علم ہے
بعض اوقات کلمات قرآن قیاس کے حکم کی بنا پر ایک آیت شمار ہوتے ہیں لیکن بحکم روایت ایک سے زیادہ آیات ہوتی ہیں مثلاًالحَمدُلِلِہ رَبِّ العَالِمینَ اَلرَّحمنِ الَّرحیِم ماَلِک یوَمِ الدّین قیاس کے حساب سے ایک کلام ہے کیونکہ یہ سب صفات ایک ہی موصوف کی ہیں پس بنابراین قیاس اسے ایک آیت ہونا چاہیے لیکن بحکم روایت یہ تین آیات ہیں لیکن بعض مواقع پر اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہےجیسے سورہ بقرہ کی آخری آیت ہے قارئین کو معلوم ہونا چاہیے کہ وقف کے سبب معانی بھی مختلف ہو جاتے ہیں جیسا کہ اس آیت میں ہے وَماٰیعلم تاَوِیلَہ اِلاَّاللہُ والراسخُونَ فیِ العلم اگر یہاں پر وقف کریں تو مراد یہ ہو گی کہ متشابہات کی تاویل خدا جانتا ہے اور وہ لوگ جو علم میں راسخ ہیں اور اگر اللہ پر وقف کریں تو معنی ہو گا کہ صرف خدا ہی تاویل متشابہات جانتا ہے۔
۳۔ علم لُغاتِ قرآن کا جاننا بھی ایک مفسر کے لئے انتہائی ضروری ہوتا ہے۔
۴۔ علم اعراب ہے اس علم کے جانے بغیرتفسیر قرآن کا شروع کرنا جائزنہیں ہے کیونکہ قرآن کے معافی لغت اور اعراب کی وساطت سے جانے جاتے ہیں
۵۔ علم اسباب نزول قرآن کو۲۳ سال کی مدت میں مختلف مناسبتوں سے اور مختلف مقامات پر نازل کیا گیا ہے جن کا علم رکھنا ضروری ہے۔
۶۔ علم ناسخ و منسوخ مکلف پر لازم ہے کہ وہ ناسخ پر عمل کرے نہ کہ منسوخ پر۔
۷۔ علم تاؤیل بعض مقامات پر لفظ ظاھراً نفی پر دلالت کرتا ہے مگر مراد اثبات ہوتی ہے جیسے
لااقسم بیوم القیٰمة
میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں۔
اور اسی طرح
وما منعک ان لاتسجد
آپ کو کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا۔
اور ایسی مثالیں بہت زیادہ ہیں۔
کبھی ایک لفظ” عَلَم“ ہوتا ہے اور مراد ایک شخض ”خاص“ ہوتا ہے
” قاَلَ لَہُم النّاَسُ انَّ الناَّسَ قَد جَمَعُو اَلکُم"
ناس اول سے مراد نعیم بن مسعود ہے اور کبھی اس کے برعکس بھی ہوتا ہے جیسے
فاعلم اَنَّہّ لاٰاِلٰہَ اِلاَّاللہ
یہاں پر مامور اگرچہ معین فردہے لیکن مراد جملہ مکلّفین ہیں
۸۔ علم قصص میں بہت سی حکمتیں ہیں۔
اوّلاً علم قصص سے نیکوں اوربُروں کی عاقبت معلوم ہوتی ہے اوراس طرح لوگوں کواطاعت کی طرف رغبت اور گناہ سے اجتناب کی ترغیب ملتی ہے۔
ثانیاًچونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اُمّی تھے اور آپ نے کسی کی شاگردی اختیار نہ کی تھی لہذا آپ جب گذشتہ اقوام و افراد کے بارے میں حکایات اور قصص بیان فرماتے تھے اور اس میں کوئی غلط بات نہیں ہوتی تھی تو ثابت ہو جاتا تھا کہ وہ یہ حکایات وحی کے ذریعے بیان فرما رہے ہیں۔
ثالثاً قصص قرآنی کا ایک فلسفہ یہ بھی ہے کہ آپ کو معلوم ہو جائے کہ جس طرح دیگر انبیاء کرام کو مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اسی طرح آپ کو بھی کرنا پڑے گا۔
۹۔ علم استنباط معافی قرآن جیسے علم اصول اور علم الفقہ کے قواعد اور مسائل کو اس علم کے ماہرین نے قرآن سے استنباط کیا ہے۔
۱۰۔ علم ارشاد نصیحت مواعظ اور امثال یہ علوم قرآن کے وہ ظواہر ہیں جن تک بشری عول کی رسائی ہے ورنہ علوم قرآن بحر بیکراں اور لامحدود ہیں۔
۱۱۔ علم معافی سے مراد تراکیب کلام کے خواص سے آگاہی ہے اس علم کے سبب سے کلام کی تطبیق کے مرحلے پر خطا سے محفوظ رہتا ہے۔
۱۲۔ علم بیان اس سے مراد وہ علم ہے جس میں متکلم ایک ہی مفہوم کو مختلف طریقوں سے آپنے سامع تک پہنچاتا ہے جس میں بعض مفاہیم بڑے واضح وروشن اور بعض پوشیدہ ہوتے ہیں۔
بدرا لدین زرکشی کی نظر میں علوم قرآن کی اقسام
زرکشی کہتے ہیں کہ متقدمین نے علوم القرآن پرکوئی کتاب نہیں لکھی تھی لہذا میں نے خداوند تعالیٰ کی مدد اور استعانت سے ایک ایسی کتاب تحریر کی ہے جو تمام نکات اور فنونِ قرآن پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب دلوں کو خوشی دیتی ہے اور عقلوں کو حیرت زدہ کرتی ہے مفسروں کے تفسیری کا م میں مددگار ہے۔ اور انہیں کتاب آسمانی کے اسرارو حقائق سے آگاہ کرتی ہے۔
علوم قرآن کی اقسام کی فہرست درج ذیل ہے
۱۔ مناسبات بین آیاتمعرفت المناسبات بین الآیات ۲۔ معرفہ سبب النزول
۳۔ معرفة الفواصل ۴۔ معرفة الوجوہ والنظائر
۵۔ علم المتشابہ ۶۔ علم المبہمات
۷۔ فی اسرار الفواتح ۸۔ فی خواتم السور
۹۔ فی معرفت المکی والمدنی ۱۰۔ معرفة اول مانزل
۱۱۔ معرفة علی کم لغةٍ نَزَل ۱۲۔ فی کیفیت الانزال
۱۳۔ فی بیان جمعہ ومن حفظ من الصحابہ ۱۴۔ معرفة تقسیمہ
۱۵۔ معرفة ما وقع فیہ من غیر لغة الحجاز ۱۶۔ معرفة اسمائِہ
۱۷۔ معرفة ما فیہ من الغة العرب ۱۸۔ معرفة غریب القرآن
۱۹۔ معرفة اختلاف الالفاظ بزیادہ او نقص ۲۰۔ معرفة التعریف
۲۱۔ معرفةِ الاحکام ۲۲۔ معرفة توجیہ
۲۳۔ معرفة کون الّلفظ اوالترکیب احسن وافصح ۲۴۔ معرفہ الوقف و والابتداء ۲۵۔ علم مرسوط الخط ۲۶۔ معرفة فضائلہ
۲۷۔ معرفة خواصّہ ۲۸۔ فی آداب تلاوتہ
۲۹۔ ہل فی القرآن شی افضل من شیء ۳۰۔ معرفتِ احکام
۳۱۔ فی انہ ہل یجوز فی التصانیف والرسائل والخطب ۳۲۔ فی معرفة جدلہ
استعمال بعض آیات القرآن ۳۳۔ معرفة ناسخہ ومنسوخہ
۳۴۔ معرفة الامثال الکائنة فیہ ۳۵۔ معرفة توہمّ المختلف
۳۶۔ فی معرفة المحکم من المتشابہ ۳۷۔ فی حکم الآیات المتشابہات
الواردہ فی الصفات ۳۸۔ معرفة اِعجازہ
۳۹۔ معرفة الوجوب تواترہ ۴۰۔ فی بیان معاضدةِ السنّہ الکتاب
۴۱۔ معرفة تفسیرہ ۴۲۔ معرفة وجوب المخاطبات
۴۳۔ بیان حقیقة ومجازہ ۴۴۔ فی ذکر ما تیسر
۴۵۔ فی اقسام معنی الکلام ۴۶۔ اَسالیب القرآن
۴۷۔ فی معرفة الادوات
امام عبداللہ زرکشی (متوفی ۷۹۴) نے علوم قرآن سے مدون شدہ ان سینتالیس(47) فصول کے آغاز میں یعنی ہر فصل سے پہلے اس علم کی وضاحت کی ہے اس علم میں لکھی جانے والی کُتب اور ان کے مصنفین کا بھی ذکر کیا ہے امام زرکشی نے علوم قرآن کو بہت عمدہ اور جامع انداز میں بیان کی ہے۔ جس سے قاری لذت محسوس کرتا ہے مصنف قاری کو ایسے مطالب سے آگاہ کرتا ہے جو کسی دوسری کتاب میں موجود نہیں ہیں۔
جلال الدین سیوطی کی نظر میں علوم قرآن کی تقسیم
جلال الدین سیوطی ”الاتقان“ کے مقدمہ میں ”البرہان“ میں امام زرکشی کی تقسیم بندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ”الاتقان“ میں ”البرہان“ کی نسبت علوم قرآن کو زیادہ بہتر صورت میں مرتب اور تقسیم کیا ہے۔ سیوطی اپنی تقسیم بندی میں ہر قسم کو ”نوع“ قرار دیتے ہوئے علوم قرآن کو یوں تقسیم کرتے ہیں۔
علوم قرآن کی اقسام کی فہرست
۱ معرفة المکّی والمدنی۔ ۲ معرفة الحضری والسفری۔
۳ النہاری واللّیلی۔ ۴ الصّیفی والشّتائی۔
۵ الفراشی والنّوس۔ ۶ الارض والسّماوی۔
۷ مانزل علی لسان بعض الصّحابہ۔ ۸ آخر مانزل
۹ اوّل مانزل۔ ۱۰ ما تکّرر نزولہ
۱۱ ما انزل منہ علی بعض لانبیاء ومالم اوّل مانزل ۱۲ اسباب النَّزول۔
ینزل منہ علی احد قبل النبیّ۔ ۱۳ فی الآحاد۔
۱۴ ماتأ خّرحکمہ عن نزولہ وماتأ خّرنزولہ عن حکمہ۔ ۱۵ مانزل مشیّعا ومانزل مفردا۔
۱۶ معرفة مانزل مفرّقا وما نزل جمعا۔ ۱۷ فی کیفیة انزالہ۔
۱۷ فی معرفة اسمائہ واسماء سورہ۔ ۱۹ فی جمعہ وترتیبہ۔
۲۰ فی عدد سورہ وآیاتہ وکلماتہ وحروفہ۔ ۲۱ فی حُفّاظِہ ورُواتِہ
۲۲ فی العالی والنّازل ۲۳ معرفہ التّواتر۔
۲۴ فی المشہور۔ ۲۵ فی الشاذ۔
۲۶ فی بیان الموصول لفظا والموصول معنا۔ ۲۷ المدّرج۔
۲۸ فی معرفة الوقف والابتداء۔ ۲۹ الموضوع۔
۳۰ فی الامالہ والفتح وما بینہما۔ ۳۱ فی المدّوالقصر۔
۳۲ فی الادغام والاظہاروالاخفاء والاقلاب۔ ۳۳ فی تخفیف الہمزہ۔
۳۴ فی کیفیہ تحمّلہ۔ ۳۵ فی آداب تلاوتہ۔
۳۶ فی معرفة غریبہ۔ ۳۷ فیما وقع فیہ بغیرلغة الحجاز۔ ۳۸ فیما وقع فیہ بغیر لغةالعرب۔ ۳۹ فی معرفة الوجوہ والنّظائر۔
۴۰ فی معرفة معانی الادوات الّتی یحتاج الیہاالمفسّر۔ ۴۱ فی معرفة اعرابہ۔
۴۲ فی قواعد مہمّة یحتاج المفسّرالی معرفتہا۔ ۴۳ فی المحکم والمتشابہ۔
۴۴ فی مقدّمہ وموٴخّرہ۔ ۴۵ فی خاصّہ وعامّہ۔
۴۶ فی مجملہ ومبینہ۔ ۴۷ فی ناسخہ ومنسوخہ۔
۴۸ فی مشکلہ وموہم الاختلاف والتناقض۔ ۴۹ فی مطلقہ ومقیّدہ۔
۵۰ فی منطوقہ ومفہومہ۔ ۵۱ فی وجوہ مخاطباتہ۔
۵۲ فی حقیقہ ومجازہ۔ ۵۳ فی تشبیہہ واستعاراتہ۔
۵۴ فی کنایاتہ وتعریضہ۔ ۵۵ فی الحصر والاختصاص۔
۵۶ فی الایجاز والاِطناب۔ ۵۷ فی الخبر والانشاء۔
۵۸ فی بدایع القرآن۔ ۵۹ فی فواصل الآی۔
۶۰ فی فواتح السّور۔ ۶۱ فی خواتم السّور۔
۶۲ فی مناسبة الآیات والسّور۔ ۶۳ فی الآت القتشابہات۔
۶۴ فی العلوم المستنبطہ من القرآن۔ ۶۵ فی اعجاز القرآن۔
۶۶ فی اسماء من نزل فیہم القرآن۔ ۶۷ فی اَمثالہ۔
۶۸ فی الاَسماء والکُنٰی والاَلقاب۔ ۶۹ فی اَقْسامہ۔
۷۰ فی افضل القرآن وفاظلہ۔ ۷۱ فی بدلہ۔
۷۲ فی فضائل القرآن۔ ۷۳ فی مبہماتہ۔
۷۴ فی مفردات القرآن۔ ۷۵ فی خواصّہ۔
۸۶ فی رسم الخطّ وآداب کتابتہ۔ ۷۷ فی شروط المفسر وآدابہ۔
۷۸ فی معرفہ تأویلہ وتفسیرہ وبیان الحاجة الیہ ۷۹ فی طبقات التفسیر۔
۸۰ فی غرائب التفسیر۔ (الاتقان ۱/۴ مصر مطبع سوم وفات ۹۱۱)
چونکہ متقدمین کی تقسیم میں مزید اصلاح اور اختصار سے کام لینے کی گنجائش تھی لہذا راقم نے اضافات کو حذف اور مشابہہ موضوعات کو مدغم کرنے کے بعد اہم موضوعات کا انتخاب کرکے ایک نئی فہرست تشکیل دی ہے جو نسبتاً جامع فہرست ہو گی۔
۱ تاریخ قرآن:
اس موضوع کے تحت درج ذیل ضمنی موضوعات آجاتے ہیں۔ کیفیت نزول، مکی اور مدنی آیات، جمع القرآن، کتابت القرآن، نقط واعراب وغیرہ۔
۲ قرأت ۳ تجوید
۴ غریب القرآن ۵ مجاز القرآن
۶ وجوہ القرآن ۷ اعراب القرآن
۸ ناسخ ومنسوخ ۹ محکم ومتشابہ
۱۰ اسباب النزول ۱۱ تفسیر القرآن
۱۲ تاویلِ القرآن
avatar
عبدالحئی عابد
Admin

Posts : 21
Join date : 11.11.2010
Location : سرگودھا،پاکستان

https://islamiat.forumur.net

Back to top Go down

Back to top

- Similar topics

 
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum